Русские видео

Сейчас в тренде

Иностранные видео


Скачать с ютуб Biography of Allama Shibli Nomani|علامہ شبلی نعمانی в хорошем качестве

Biography of Allama Shibli Nomani|علامہ شبلی نعمانی 1 год назад


Если кнопки скачивания не загрузились НАЖМИТЕ ЗДЕСЬ или обновите страницу
Если возникают проблемы со скачиванием, пожалуйста напишите в поддержку по адресу внизу страницы.
Спасибо за использование сервиса savevideohd.ru



Biography of Allama Shibli Nomani|علامہ شبلی نعمانی

اس ویڈیو میں علامہ شبلی نعمانی کے حالات زندگی، ادبی خدمات اور تصانیف کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی    • Biography of Molana Altaf Hussain Hal...   #adabnama #shibli #nomani #اردو شبلی 1857ء میں اعظم گڑھ کے نزدیک بندول میں پیدا ہوئے۔ یہ لوگ نسلاً راجپوت تھے۔ شبلی امام ابو حنیفہ سے مزاجی قربت رکھتے تھے، اسی لئے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ امام ابو حنیفہ کے نام نعمان بن ثابت کی نسبت سے نعمانی لکھنا شروع کیا۔ ان کے والد اعظم گڑھ کے نامور وکیل، بڑے زمینداراور نیل و شکر کے تاجر تھے۔ شبلی کو انھوں نے دینی تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا۔ شبلی نے اپنے وقت کے جیّد علماء سے فارسی عربی حدیث فقہ اور دیگر اسلامی علوم حاصل کئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا نے کچھ دنوں قرق امین کے طور پر ملازمت کی پھر وکالت کا امتحان دیا، جس میں فیل ہو گئے، لیکن اگلے سال کامیاب ہوئے۔ کچھ دنوں مختلف مقامات پر ناکام وکالت کرنے کے بعد مولانا کوعلی گڑھ میں سر سید کے کالج میں عربی اور فارسی کے معلم کی نوکری مل گئی۔ یہیں سے شبلی کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوا۔ علی گڑھ کی ملازمت کے دوران ہی مولانا نے ترکی شام اور مصر کا سفر کیا ۔ ترکی میں سر سید کے رفیق اور عربی و فارسی کے اسکالر کے طور پر ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ عطیہ فیضی کے والد حسن آفندی کی سفارش پر، کہ وہ سلطان عبد الحمید کے دربار میں خاصا رسوخ رکھتے تھے، ان کو ’’تمغۂ مجیدیہ‘‘ سے نوازا گیا۔ واپسی پر انھوں نے المامون اور سیرت نعمان لکھیں۔ 1890ء میں شبلی نے ایک بار پھر ترکی، لبنان اور فلسطین کا دورہ کیا اور وہاں کے کتب خانے دیکھے۔ اس سفر سے واپسی پر انھوں نے ’’الفاروق‘‘ لکھی۔ 1898ء میں سر سید کے انتقال کے بعد شبلی نے علی گڑھ چھوڑ دیا۔ اور اعظم گڑھ واپس آ کر اپنے قائم کردہ ’’نیشنل اسکول‘‘ (جو اب شبلی کالج ہے) کی ترقی میں مصروف ہو گئے۔ پھر وہ حیدراباد چلے گئے، جہاں کے اپنے چار سالہ قیام میں انھوں نے الغزالی، علم الکلام، الکلام، سوانح عمری مولانا روم، اور موازنۂ انیس و دبیر لکھیں۔ اس کے بعد وہ لکھنؤ آ گئے جہاں انھوں نے ندوۃ العلماء کے تعلیمی معاملات سنبھالے۔ ندوہ کی مصروفیا ت کے درمیان ہی انھوں نے شعرالعجم لکھی۔1907 میں گھر میں بھری بندوق اچانک چل جانے سے وہ اپنا اک پیر گنوا بیٹھے اور لکڑی کے پیر کے ساتھ باقی زندگی گزاری۔ مولانا نے دو شادیاں کیں، پہلی شادی کم عمری میں ہی ہو گئی تھی۔ پہلی بیوی کا 1895 میں انتقال ہو گیا۔ 1900ء میں 43 سال کی عمر میں انھوں نے ایک کمسن لڑکی سے دوسری شادی کی، جس کا 1905ء میں انتقال ہو گیا۔ شبلی کا خواب تھا کہ بڑے بڑے علماء کو جمع کر کے علمی تحقیق و اشاعت کا اک ادارہ ’’دار المصنفین‘‘ کے نام سے قائم کیا جائے۔ انھوں نے اس کا انتظام پورا کر لیا تھا، لیکن ادارہ کا افتتاح ان کی موت کے بعد ہی ہو سکا۔ مولانا کی بعض سرگرمیوں کی وجہ سے ندوۃ میں ان کی مخالفت بڑھ گئی تھی۔ آخر ان کو اس ادارے سے، جس کی ترقی کے لئے انھوں نے بڑی محنت کی تھی، الگ ہونا پڑا اور وہ اعظم گڑھ آ کراسکول اور زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ یہاں آ کر ان کی صحت گرنے لگی اور 18 نومبر 1914ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ شبلی نعمانی اک فعّال اور محنتی آدمی تھے۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتے پوری محنت اور لگن سے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے۔ اپنی علمیت و شہرت کی بدولت ان کی رسائی اس وقت کی بہت سی ریاستوں کے مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں تک تھی، جن سے ان کو اپنے علمی وعملی منصوبوں کے لئے مدد ملتی رہتی تھی۔ Shibli is among the select few who under the guidance and companionship of Sir Syed Ahmad Khan broke free of the stereotypical Maulvi-image and ventured into the preserve of literature. He was the first who precisely put together the history of Islam as it was, in Urdu. He penned a series of insightful books about pivotal personalities in Islam, which included several eminent predecessors. His most famous and noteworthy book is the biography of the second caliph Omar Farooq titled "Al-Farooq". The last in this series of books was "Sirat-un-Nabi", which remained unfinished till his last breath. Later, it was completed and published by his student Syed Sulaiman Nadvi. In addition to these works, Shibli wrote numerous historical and research articles, which gave rise to a general interest in history and historiography. He was also a skilled poet and discerning critic who is considered one of the founders of Urdu criticism. During his stay in Aligarh, Shibli also benefited from Professor Arnold and courtesy him became acquainted with Western civilization and its social etiquette. Shibli acknowledged the finer aspects of the western society and blended it with his oriental values. This convergence made the traditionalists treat him with despise which eventually forced Shibli to leave Nadwa, and later incline himself with west-centric circles without any feeling of mediocrity.

Comments